بڑھائی مے جو محبت سے آج ساقی نے
یہ کانپے ہاتھ کہ ساغر بھی ہم اٹھا نہ سکے
مجروح سلطانپوری
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
مجروح سلطانپوری
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
مجروح سلطانپوری
بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
مجروح سلطانپوری
دست پر خوں کو کف دست نگاراں سمجھے
قتل گہہ تھی جسے ہم محفل یاراں سمجھے
مجروح سلطانپوری
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح سلطانپوری
اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے
مجروح سلطانپوری
فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے
مجروح سلطانپوری
غم حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ
تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں
مجروح سلطانپوری