اب اہل درد یہ جینے کا اہتمام کریں
اسے بھلا کے غم زندگی کا نام کریں
فریب کھا کے ان آنکھوں کا کب تلک اے دل
شراب خام پئیں رقص نا تمام کریں
غم حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ
تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں
نہ مانگوں بادۂ گلگوں سے بھیک مستی کی
اگر ترے لب لعلیں مرا یہ کام کریں
نہ دیکھیں دیر و حرم سوئے رہروان حیات
یہ قافلے تو نہ جانے کہاں قیام کریں
ہیں اس کشاکش پیہم میں زندگی کے مزے
پھر ایک بار کوئی سعئ نا تمام کریں
سکھائیں دست طلب کو ادائے بیباکی
پیام زیرلبی کو صلائے عام کریں
غلام رہ چکے توڑیں یہ بند رسوائی
کچھ اپنے بازوئے محنت کا احترام کریں
زمیں کو مل کے سنواریں مثال روئے نگار
رخ نگار سے روشن چراغ بام کریں
پھر اٹھ کے گرم کریں کاروبار زلف و جنوں
پھر اپنے ساتھ اسے بھی اسیر دام کریں
مری نگاہ میں ہے ارض ماسکو مجروحؔ
وہ سرزمیں کہ ستارے جسے سلام کریں
غزل
اب اہل درد یہ جینے کا اہتمام کریں
مجروح سلطانپوری