گلوں سے بھی نہ ہوا جو مرا پتا دیتے
صبا اڑاتی پھری خاک آشیانے کی
مجروح سلطانپوری
ہم ہیں کعبہ ہم ہیں بت خانہ ہمیں ہیں کائنات
ہو سکے تو خود کو بھی اک بار سجدا کیجیے
مجروح سلطانپوری
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو چار گریباں تم سے زیادہ
مجروح سلطانپوری
ہٹ کے روئے یار سے تزئین عالم کر گئیں
وہ نگاہیں جن کو اب تک رائیگاں سمجھا تھا میں
مجروح سلطانپوری
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی
مجروح سلطانپوری
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
مجروح سلطانپوری
کہاں بچ کر چلی اے فصل گل مجھ آبلہ پا سے
مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے
مجروح سلطانپوری