تشنگی ہی تشنگی ہے کس کو کہیے مے کدہ
لب ہی لب ہم نے تو دیکھے کس کو پیمانہ کہیں
مجروح سلطانپوری
تجھے نہ مانے کوئی تجھ کو اس سے کیا مجروح
چل اپنی راہ بھٹکنے دے نکتہ چینوں کو
مجروح سلطانپوری
وہ آ رہے ہیں سنبھل سنبھل کر نظارہ بے خود فضا جواں ہے
جھکی جھکی ہیں نشیلی آنکھیں رکا رکا دور آسماں ہے
مجروح سلطانپوری
زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروحؔ
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے
مجروح سلطانپوری
دل کی تمنا تھی مستی میں منزل سے بھی دور نکلتے
اپنا بھی کوئی ساتھی ہوتا ہم بھی بہکتے چلتے چلتے
مجروح سلطانپوری
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم
اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم
مجروح سلطانپوری
ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب
لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں
مجروح سلطانپوری
الگ بیٹھے تھے پھر بھی آنکھ ساقی کی پڑی ہم پر
اگر ہے تشنگی کامل تو پیمانے بھی آئیں گے
مجروح سلطانپوری
اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے
جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم
مجروح سلطانپوری