دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح سلطانپوری
اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے
مجروح سلطانپوری
بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
مجروح سلطانپوری
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
مجروح سلطانپوری
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
مجروح سلطانپوری
بڑھائی مے جو محبت سے آج ساقی نے
یہ کانپے ہاتھ کہ ساغر بھی ہم اٹھا نہ سکے
مجروح سلطانپوری
اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے
جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم
مجروح سلطانپوری
الگ بیٹھے تھے پھر بھی آنکھ ساقی کی پڑی ہم پر
اگر ہے تشنگی کامل تو پیمانے بھی آئیں گے
مجروح سلطانپوری
ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب
لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں
مجروح سلطانپوری