چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
بہار باغ گو یوں ہی رہی لیکن کدھر شبنم
عرق کی بوند اس کی زلف سے رخسار پر ٹپکی
تعجب کی ہے جاگہ یہ پڑی خورشید پر شبنم
ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا
ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم
کرے ہے کچھ سے کچھ تاثیر صحبت صاف طبعوں کی
ہوئی آتش سے گل کی بیٹھتے رشک شرر شبنم
بھلا ٹک صبح ہونے دو اسے بھی دیکھ لیویں گے
کسی عاشق کے رونے سے نہیں رکھتی خبر شبنم
نہیں اسباب کچھ لازم سبک ساروں کے اٹھنے کو
گئی اڑ دیکھتے اپنے بغیر از بال و پر شبنم
نہ پایا جو گیا اس باغ سے ہرگز سراغ اس کا
نہ پلٹی پھر صبا ایدھر نہ پھر آئی نظر شبنم
نہ سمجھا دردؔ ہم نے بھید یاں کی شادی و غم کا
سحر خنداں ہے کیوں روتی ہے کس کو یاد کر شبنم
غزل
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
خواجہ میر دردؔ