EN हिंदी
خلیلؔ الرحمن اعظمی شیاری | شیح شیری

خلیلؔ الرحمن اعظمی شیر

54 شیر

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا

خلیلؔ الرحمن اعظمی




ہر ایک لے میری اکھڑی اکھڑی سی دل کا ہر تار جیسے زخمی
یہ کون سی آگ جل رہی ہے یہ میری گیتوں کو کیا ہوا ہے

خلیلؔ الرحمن اعظمی




ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا

خلیلؔ الرحمن اعظمی




ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق
یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو

خلیلؔ الرحمن اعظمی




جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی

خلیلؔ الرحمن اعظمی




کوئی تو بات ہوگی کہ کرنے پڑے ہمیں
اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال

خلیلؔ الرحمن اعظمی




کوئی وقت بتلا کہ تجھ سے ملوں
مری دوڑتی بھاگتی زندگی

خلیلؔ الرحمن اعظمی




کیوں ہر گھڑی زباں پہ ہو جرم و سزا کا ذکر
کیوں ہر عمل کی فکر میں خوف خدا کی شرط

خلیلؔ الرحمن اعظمی




لاکھ سادہ سہی تیری یہ جبیں کی تحریر
اس سے اکثر مرے افکار کو ملتی ہے زباں

خلیلؔ الرحمن اعظمی