EN हिंदी
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا | شیح شیری
bane-banae se raston ka silsila nikla

غزل

بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا

ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا

ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا

اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا