دنیا داری تو کیا آتی دامن سینا سیکھ لیا
مرنے کے تھے لاکھ بہانے پھر بھی جینا سیکھ لیا
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ہائے اس دست کرم ہی سے ملے جور و جفا
مجھ کو آغاز محبت ہی میں مر جانا تھا
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ہائے وہ لوگ جن کے آنے کا
حشر تک انتظار ہوتا ہے
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی
ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط
خلیلؔ الرحمن اعظمی
آج ڈوبا ہوا خوشبو میں ہے پیراہن جاں
اے صبا کس نے یہ پوچھا ہے ترا نام و نشاں
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ہم پہ جو گزری ہے بس اس کو رقم کرتے ہیں
آپ بیتی کہو یا مرثیہ خوانی کہہ لو
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ہم سا ملے کوئی تو کہیں اس سے حال دل
ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ہمارے بعد اس مرگ جواں کو کون سمجھے گا
ارادہ ہے کہ اپنا مرثیہ بھی آپ ہی لکھ لیں
خلیلؔ الرحمن اعظمی