پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی
وہی اک شے جو اجنبی ہوگی
شور سا ہے لہو کے دریا میں
کس کی آواز آ رہی ہوگی
پھر مری روح میرے گھر کا پتہ
میرے سائے سے پوچھتی ہوگی
کچھ نہیں میری زرد آنکھوں میں
ڈوبتے دن کی روشنی ہوگی
رات بھر دل سے بس یہی باتیں
دن کو پھر درد میں کمی ہوگی
بس یہی ایک بوند آنسو کی
میرے حصے کی رہ گئی ہوگی
پھر مرے انتظار میں مری نیند
میرے بستر پہ جاگتی ہوگی
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
غزل
پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی
خلیلؔ الرحمن اعظمی