EN हिंदी
پینا نہیں حرام، ہے زہر وفا کی شرط | شیح شیری
pina nahin haram, hai zahr-e-wafa ki shart

غزل

پینا نہیں حرام، ہے زہر وفا کی شرط

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

پینا نہیں حرام، ہے زہر وفا کی شرط
آؤ اٹھا دیں آج مئے جاں فزا کی شرط

شوریدگئ سر کے لیے سنگ در کی قید
زنجیر غم کے واسطے زلف دوتا کی شرط

ہو دوپہر کی دھوپ تو پلکوں کے سائباں
راتیں گزارنی ہوں تو کالی بلا کی شرط

یہ کیا ضرور ہو مژہ عشق خوں فشاں
کیوں دست ناز کے لیے رنگ حنا کی شرط

ہر دل فگار کے لیے کیوں چاک پیرہن
ہر دل نواز کے لیے بند قبا کی شرط

کیا فرض ہے کہ ہم بھی بنیں قیس عامری
راہ جنوں میں کیوں ہو کسی نقش پا کی شرط

کیوں دل کے توڑنے کو کہیں رسم دلبری
کیوں ہو کسی سے وعدۂ صبر آزما کی شرط

کیوں ہو کسی کو کوچۂ قاتل کی جستجو
کیوں امتحاں کے واسطے تیغ جفا کی شرط

کیوں زندگی کو جبر مسلسل کا نام دیں
کیوں آرزوئے موت کو دست دعا کی شرط

کیوں ہر گھڑی زباں پہ ہو جرم و سزا کا ذکر
کیوں ہر عمل کی فکر میں خوف خدا کی شرط

ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی
ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط