آہ تو اب بھی دل سے اٹھتی ہے
لیکن اس میں اثر نہیں ہوتا
کرامت بخاری
ایک نظر میں اس نے ہر اک دل کو جیت لیا
ایک نظر میں اس کے ہو گئے جانے کتنے لوگ
کرامت بخاری
گواہی کے لیے کافی رہے گا
میں اپنا خون منہ پہ مل رہا ہوں
کرامت بخاری
ہر سوچ میں سنگین فضاؤں کا فسانہ
ہر فکر میں شامل ہوا تحریر کا ماتم
کرامت بخاری
میں کہ تیرے دھیان میں گم تھا
دنیا مجھ کو ڈھونڈھ رہی تھی
کرامت بخاری
مدت سے محبت کے سفر میں ہوں کرامتؔ
لیکن ابھی چاہت کے نگر تک نہیں پہنچا
کرامت بخاری
پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ
سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا
کرامت بخاری
یاد نہ آنے کا وعدہ کر کے
وہ تو پہلے سے سوا یاد آیا
کرامت بخاری
یہ بادل غم کے موسم کے جو چھٹ جاتے تو اچھا تھا
یہ پھیلائے ہوئے منظر سمٹ جاتے تو اچھا تھا
کرامت بخاری