آج خلوت میں خدا یاد آیا
پھر مجھے حرف دعا یاد آیا
یاد نہ آنے کا وعدہ کر کے
وہ تو پہلے سے سوا یاد آیا
جب کہیں پھول مہکتے دیکھے
پھر ترا بند قبا یاد آیا
جب گھٹائیں کبھی گھر کر آئیں
کیا بتائیں ہمیں کیا یاد آیا
یاد آئی ترے چہرے کی چمک
ظلمت شب میں دیا یاد آیا
پیاس میں جب ہوئی پانی کی طلب
واقعۂ کرب و بلا یاد آیا
غزل
آج خلوت میں خدا یاد آیا
کرامت بخاری