یہ بادل غم کے موسم کے جو چھٹ جاتے تو اچھا تھا
یہ پھیلائے ہوئے منظر سمٹ جاتے تو اچھا تھا
یہ دل تاریک حجرہ ہے اسے روشن کرو آ کر
یہ دن تاریکیوں والے جو کٹ جاتے تو اچھا تھا
مقام دل کہیں آبادیوں سے دور ہے شاید
مگر یہ فاصلے دل کے سمٹ جاتے تو اچھا تھا
یہ دور حبس ٹوٹے تو ہم اپنا بادباں کھولیں
مگر باد مخالف میں جو ڈٹ جاتے تو اچھا تھا
کہیں گرد ملامت سے کہیں گرد ندامت سے
یہ چہرے گرد گردوں سے جو اٹ جاتے تو اچھا تھا
غزل
یہ بادل غم کے موسم کے جو چھٹ جاتے تو اچھا تھا
کرامت بخاری