دہکتی خواہشوں میں جل رہا ہوں
کبھی قاتل کبھی مقتل رہا ہوں
مرا پیچھا نہ کر اے زندگانی
میں راہ رفتگاں پہ چل رہا ہوں
میں ایسا اژدہا ہوں خواہشوں کا
خود اپنا خون پی کر پل رہا ہوں
رہا ہوں واقف راز حقیقت
بظاہر بے خبر پاگل رہا ہوں
ردائے تشنگی اوڑھے ہوئے میں
سمندر کے کنارے چل رہا ہوں
گواہی کے لیے کافی رہے گا
میں اپنا خون منہ پہ مل رہا ہوں
کوئی بھولا ہوا نغمہ ہوں دل کا
وفا کے آنسوؤں میں ڈھل رہا ہوں
غزل
دہکتی خواہشوں میں جل رہا ہوں
کرامت بخاری