دنیا کی اس بھیڑ میں کھو گئے جانے کتنے لوگ
ان آنکھوں سے اوجھل ہو گئے جانے کتنے لوگ
صدمے سہتے سہتے ساری عمریں بیت گئیں
اور زمیں کو اوڑھ کے سو گئے جانے کتنے لوگ
کچھ لوگوں کے گھر میں اتری خوشیوں کی بارات
اور غموں کے بوجھ کو ڈھو گئے جانے کتنے لوگ
وقت کے اس بہتے دریا میں خاموشی کے ساتھ
اپنی ناؤ آپ ڈبو گئے جانے کتنے لوگ
ایک نظر میں اس نے ہر اک دل کو جیت لیا
ایک نظر میں اس کے ہو گئے جانے کتنے لوگ
اشکوں کی برسات میں بہہ گئی مہجوری کی راکھ
اپنے دل کے داغ کو دھو گئے جانے کتنے لوگ
غزل
دنیا کی اس بھیڑ میں کھو گئے جانے کتنے لوگ
کرامت بخاری