ملنے کی جب بات ہوئی تھی
تنہائی بھی پاس کھڑی تھی
آنکھوں میں طوفان آیا تھا
دل کی بستی ڈوب گئی تھی
میں کہ تیرے دھیان میں گم تھا
دنیا مجھ کو ڈھونڈھ رہی تھی
ہم دونوں خاموش کھڑے تھے
ساون کی پر زور جھڑی تھی
کوسوں دور مجھے جانا تھا
پاؤں میں زنجیر پڑی تھی
تم سے جدائی کا کیا رونا
یہ تو قسمت میں لکھی تھی
خوابوں کے اک شہزادے سے
نیند کی دیوی روٹھ گئی تھی
ساری عمر سلگتے گزری
میں تھا یا گیلی لکڑی تھی
غزل
ملنے کی جب بات ہوئی تھی
کرامت بخاری