جس شجر پر ثمر نہیں ہوتا
اس کو پتھر کا ڈر نہیں ہوتا
آنکھ میں بھی چمک نہیں ہوتی
جب وہ پیش نظر نہیں ہوتا
مے کدے میں یہ ایک خوبی ہے
ناصحا تیرا ڈر نہیں ہوتا
اب تو بازار بھی ہیں بے رونق
کوئی یوسف ادھر نہیں ہوتا
جو صدف ساحلوں پہ رہ جائے
اس میں کوئی گہر نہیں ہوتا
آہ تو اب بھی دل سے اٹھتی ہے
لیکن اس میں اثر نہیں ہوتا
غم کے ماروں کا جو بھی مسکن ہو
گھر تو ہوتا ہے پر نہیں ہوتا
اہل دل جو بھی کام کرتے ہیں
اس میں شیطاں کا شر نہیں ہوتا
غزل
جس شجر پر ثمر نہیں ہوتا
کرامت بخاری