EN हिंदी
انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا | شیح شیری
insaf jo nadar ke ghar tak nahin pahuncha

غزل

انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا

کرامت بخاری

;

انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا
سمجھو کہ ابھی ہاتھ ثمر تک نہیں پہنچا

مژگاں پہ رکے ہیں ابھی ڈھلکے نہیں آنسو
یہ سوچ کا سیلاب سفر تک نہیں پہنچا

کچھ لوگ ابھی خیر کی خواہش کے امیں ہیں
دستار کا جھگڑا ابھی سر تک نہیں پہنچا

پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ
سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا

انسان تو دکھ درد کے صحراؤں میں گم ہے
یہ قافلہ خوشیوں کے ڈگر تک نہیں پہنچا

مدت سے محبت کے سفر میں ہوں کرامتؔ
لیکن ابھی چاہت کے نگر تک نہیں پہنچا