انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا
سمجھو کہ ابھی ہاتھ ثمر تک نہیں پہنچا
مژگاں پہ رکے ہیں ابھی ڈھلکے نہیں آنسو
یہ سوچ کا سیلاب سفر تک نہیں پہنچا
کچھ لوگ ابھی خیر کی خواہش کے امیں ہیں
دستار کا جھگڑا ابھی سر تک نہیں پہنچا
پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ
سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا
انسان تو دکھ درد کے صحراؤں میں گم ہے
یہ قافلہ خوشیوں کے ڈگر تک نہیں پہنچا
مدت سے محبت کے سفر میں ہوں کرامتؔ
لیکن ابھی چاہت کے نگر تک نہیں پہنچا
غزل
انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا
کرامت بخاری