آج کچھ ایسے شعلے بھڑکے بارش کے ہر قطرے سے
دھوپ پناہیں مانگ رہی ہے بھیگے ہوئے درختوں میں
کیف احمد صدیقی
آج پھر شاخ سے گرے پتے
اور مٹی میں مل گئے پتے
کیف احمد صدیقی
چمن میں شدت درد نمود سے غنچے
تڑپ رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں
کیف احمد صدیقی
ہم آج کچھ حسین سرابوں میں کھو گئے
آنکھیں کھلیں تو جاگتے خوابوں میں کھو گئے
کیف احمد صدیقی
اک برس بھی ابھی نہیں گزرا
کتنی جلدی بدل گئے چہرے
کیف احمد صدیقی
کیفؔ کہاں تک تم خود کو بے داغ رکھو گے
اب تو ساری دنیا کے منہ پر سیاہی ہے
کیف احمد صدیقی
کیفؔ یوں آغوش فن میں ذہن کو نیند آ گئی
جیسے ماں کی گود میں بچہ سسک کر سو گیا
کیف احمد صدیقی
خدا معلوم کس آواز کے پیاسے پرندے
وہ دیکھو خامشی کی جھیل میں اترے پرندے
کیف احمد صدیقی
خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے
ترے غم نے بٹھا رکھے ہیں پہرے
کیف احمد صدیقی