EN हिंदी
خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے | شیح شیری
KHushi ki aarzu kya dil mein Thahre

غزل

خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے

کیف احمد صدیقی

;

خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے
ترے غم نے بٹھا رکھے ہیں پہرے

کہاں چھوڑ آئی میری تیرہ بختی
وہ راتیں نور کی وہ دن سنہرے

مری جانب نہ دیکھو مسکرا کر
ہوئے جاتے ہیں دل کے زخم گہرے

نظر پر تیرگی چھائی ہوئی ہے
مگر آنکھوں میں ہیں سپنے سنہرے

جدھر بھی دیکھتا ہوں کیفؔ ادھر ہی
گھرے ہیں غم کے بادل گہرے گہرے