خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے
ترے غم نے بٹھا رکھے ہیں پہرے
کہاں چھوڑ آئی میری تیرہ بختی
وہ راتیں نور کی وہ دن سنہرے
مری جانب نہ دیکھو مسکرا کر
ہوئے جاتے ہیں دل کے زخم گہرے
نظر پر تیرگی چھائی ہوئی ہے
مگر آنکھوں میں ہیں سپنے سنہرے
جدھر بھی دیکھتا ہوں کیفؔ ادھر ہی
گھرے ہیں غم کے بادل گہرے گہرے
غزل
خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے
کیف احمد صدیقی