سارے دن دشت تجسس میں بھٹک کر سو گیا
شام کی آغوش میں سورج بھی تھک کر سو گیا
آخر شب میں بھی کھا کر خواب آور گولیاں
چند لمحے نشۂ غم سے بہک کر سو گیا
یہ سکوت شام یہ ہنگامۂ ذہن بشر
روح ہے بے دار لیکن جسم تھک کر سو گیا
آخر اس دور پر آشوب کا ہر آدمی
خواب مستقبل کے جنگل میں بھٹک کر سو گیا
چند دن گلشن میں نغمات مسرت چھیڑ کر
شاخ غم پر روح کا پنچھی چہک کر سو گیا
آخرش سارے چمن کو دے کے حسن زندگی
موت کے بستر پہ ہر غنچہ مہک کر سو گیا
زندگی بھر اب اندھیری رات میں ہے جاگنا
اب تو قسمت کا ستارہ بھی چمک کر سو گیا
پیکر الفاظ میں اک آگ دہکاتا ہوا
کاغذی صحرا میں اک شعلہ بھڑک کر سو گیا
کیفؔ یوں آغوش فن میں ذہن کو نیند آ گئی
جیسے ماں کی گود میں بچہ سسک کر سو گیا
غزل
سارے دن دشت تجسس میں بھٹک کر سو گیا
کیف احمد صدیقی