ہم آج کچھ حسین سرابوں میں کھو گئے
آنکھیں کھلیں تو جاگتے خوابوں میں کھو گئے
ہم صفحۂ حیات سے جب بے نشاں ہوئے
لفظوں کی روح بن کے کتابوں میں کھو گئے
آئینۂ بہار کے کچھ عکس مضمحل
خوشبو کا رنگ پا کے گلابوں میں کھو گئے
دراصل برشگال کے تم آفتاب تھے
برسات جب ہوئی تو سحابوں میں کھو گئے
نکلے تھے جو بھی آج تلاش ثواب میں
وہ زندگی کے سخت عذابوں میں کھو گئے
دل کو تھی ایک شہر تمنا کی جستجو
لیکن ہم آرزو کے خرابوں میں کھو گئے
جب مسئلہ حیات کا کچھ حل نہ ہو سکا
ہم کیفؔ فلسفے کی کتابوں میں کھو گئے
غزل
ہم آج کچھ حسین سرابوں میں کھو گئے
کیف احمد صدیقی