EN हिंदी
سرد جذبے بجھے بجھے چہرے | شیح شیری
sard jazbe bujhe bujhe chehre

غزل

سرد جذبے بجھے بجھے چہرے

کیف احمد صدیقی

;

سرد جذبے بجھے بجھے چہرے
جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے

آج کے دور کی علامت ہیں
فلسفی ذہن سوچتے چہرے

سیل غم سے بھی صاف ہو نہ سکے
گرد آلود ملگجے چہرے

یخ زدہ سوچ کے دریچوں میں
کس نے دیکھے ہیں کانپتے چہرے

اک برس بھی ابھی نہیں گزرا
کتنی جلدی بدل گئے چہرے

میں نے اکثر خود اپنے چہرے پر
دوسروں کے سجا لئے چہرے

وہ تو نکلے بہت ہی بد صورت
کیفؔ دیکھے تھے جو سجے چہرے