سرد جذبے بجھے بجھے چہرے
جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے
آج کے دور کی علامت ہیں
فلسفی ذہن سوچتے چہرے
سیل غم سے بھی صاف ہو نہ سکے
گرد آلود ملگجے چہرے
یخ زدہ سوچ کے دریچوں میں
کس نے دیکھے ہیں کانپتے چہرے
اک برس بھی ابھی نہیں گزرا
کتنی جلدی بدل گئے چہرے
میں نے اکثر خود اپنے چہرے پر
دوسروں کے سجا لئے چہرے
وہ تو نکلے بہت ہی بد صورت
کیفؔ دیکھے تھے جو سجے چہرے
غزل
سرد جذبے بجھے بجھے چہرے
کیف احمد صدیقی