ہم ایک ڈھلتی ہوئی دھوپ کے تعاقب میں
ہیں تیز گام سائے سائے جاتے ہیں
چمن میں شدت درد نمود سے غنچے
تڑپ رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں
میں وہ خزاں کا برہنہ بدن شجر ہوں جسے
لباس زخم بہاراں پہنائے جاتے ہیں
شفق کی جھیل میں جب بھی ہے ڈوبتا سورج
تو پاس دھوپ ہی جاتی نہ سائے جاتے ہیں
یہ زندگی وہ تڑپتی غزل ہے کیفؔ جسے
ہر ایک ساز حوادث پہ گائے جاتے ہیں
غزل
ہم ایک ڈھلتی ہوئی دھوپ کے تعاقب میں
کیف احمد صدیقی