آج پھر شاخ سے گرے پتے
اور مٹی میں مل گئے پتے
جانے کس دشت کی تلاش میں ہیں
ریگزاروں میں چیختے پتے
کل جنہیں آسماں پہ دیکھا تھا
آج پاتال میں ملے پتے
اپنی آواز ہی سے خوف زدہ
شاخ در شاخ کانپتے پتے
مجھ کو اک برگ خشک بھی نہ ملا
اب کہاں باغ میں ہرے پتے
سارے گلشن کو دے گئے سونا
اور خود خاک بن گئے پتے
کیفؔ ویرانیٔ گلستاں بھی
بعض اوقات لے اڑے پتے
غزل
آج پھر شاخ سے گرے پتے
کیف احمد صدیقی