یہ پیلی شاخ پر بیٹھے ہوئے پیلے پرندے
لرزتی دھوپ کی آغوش میں سہمے پرندے
خدا معلوم کس آواز کے پیاسے پرندے
وہ دیکھو خامشی کی جھیل میں اترے پرندے
مرے کمرے کی ویرانی سے اکتائے پرندے
سلگتی دوپہر میں کس طرف جاتے پرندے
حصار جسم سے گھبرا کے جب نکلے پرندے
ہوا کی زد میں آ کر دیر تک چیخے پرندے
خود اپنے شعلۂ پرواز سے جلتے پرندے
خلائے یخ زدہ میں رہ کے بھی سلگے پرندے
مرے دست ہوس آلود سے اڑتے پرندے
کسی شاخ جوانی تک نہیں پہنچے پرندے
ازل سے اک حسیں خوشبو کے دیوانے پرندے
ابد تک کیفؔ دشت رنگ میں بھٹکے پرندے
غزل
یہ پیلی شاخ پر بیٹھے ہوئے پیلے پرندے
کیف احمد صدیقی