سورج آنکھیں کھول رہا ہے سوکھے ہوئے درختوں میں
سائے راکھ بنے جاتے ہیں جیتے ہوئے درختوں میں
آج کچھ ایسے شعلے بھڑکے بارش کے ہر قطرے سے
دھوپ پناہیں مانگ رہی ہے بھیگے ہوئے درختوں میں
خاموشی بھی خوف زدہ ہے آسیبی آوازوں سے
سناٹے بھی کانپ رہے ہیں سہمے ہوئے درختوں میں
تنہائی کی دلہن اپنی مانگ سجائے بیٹھی ہے
ویرانی آباد ہوئی ہے اجڑے ہوئے درختوں میں
آج تو سارے باغ میں خواب مرگ کا نشہ طاری ہے
لیکن کوئی جاگ رہا ہے سوئے ہوئے درختوں میں
کون مصیبت کے عام میں ساتھ کسی کا دیتا ہے
چند پرندے چیخ رہے ہیں گرتے ہوئے درختوں میں
غزل
سورج آنکھیں کھول رہا ہے سوکھے ہوئے درختوں میں
کیف احمد صدیقی