EN हिंदी
کیف احمد صدیقی شیاری | شیح شیری

کیف احمد صدیقی شیر

14 شیر

محسوس ہو رہا ہے کہ میں خود سفر میں ہوں
جس دن سے ریل پر میں تجھے چھوڑنے گیا

کیف احمد صدیقی




سرد جذبے بجھے بجھے چہرے
جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے

کیف احمد صدیقی




تنہائی کی دلہن اپنی مانگ سجائے بیٹھی ہے
ویرانی آباد ہوئی ہے اجڑے ہوئے درختوں میں

کیف احمد صدیقی




تنہائیوں کو سونپ کے تاریکیوں کا زہر
راتوں کو بھاگ آئے ہم اپنے مکان سے

کیف احمد صدیقی




وہ خود ہی اپنی آگ میں جل کر فنا ہوا
جس سائے کی تلاش میں یہ آفتاب ہے

کیف احمد صدیقی