اجنبی بود و باش کے قرب و جوار میں ملا
بچھڑا تو وہ مجھے کسی اور دیار میں ملا
جاوید شاہین
ڈوبنے والا تھا دن شام تھی ہونے والی
یوں لگا مری کوئی چیز تھی کھونے والی
جاوید شاہین
حساب دوستاں کرنے ہی سے معلوم یہ ہوگا
خسارے میں ہوں یا اب میں خسارے سے نکل آیا
جاوید شاہین
جمع کرتی ہے مجھے رات بہت مشکل سے
صبح کو گھر سے نکلتے ہی بکھرنے کے لیے
جاوید شاہین
جدا تھی بام سے دیوار در اکیلا تھا
مکیں تھے خود میں مگن اور گھر اکیلا تھا
جاوید شاہین
کہیں صدائے جرس ہے نہ گرد راہ سفر
ٹھہر گیا ہے کہاں قافلہ تمنا کا
جاوید شاہین
خطا کس کی ہے تم ہی وقت سے باہر رہے شاہیںؔ
تمہیں آواز دینے ایک لمحہ دور تک آیا
جاوید شاہین
خود بنا لیتا ہوں میں اپنی اداسی کا سبب
ڈھونڈ ہی لیتی ہے شاہیںؔ مجھ کو ویرانی مری
جاوید شاہین
کس طرح بے موج اور خالی روانی سے ہوا
بے خبر دریا کہاں پر اپنے پانی سے ہوا
جاوید شاہین