EN हिंदी
کس طرح بے موج اور خالی روانی سے ہوا | شیح شیری
kis tarah be-mauj aur Khaali rawani se hua

غزل

کس طرح بے موج اور خالی روانی سے ہوا

جاوید شاہین

;

کس طرح بے موج اور خالی روانی سے ہوا
بے خبر دریا کہاں پر اپنے پانی سے ہوا

بڑھ رہی تھی ایک بستی سے مری بیگانگی
مسئلہ میرا نہ حل نقل مکانی سے ہوا

اپنے ہونے کا مجھے خود ہی دیا اس نے ثبوت
آشنا اس سے اسی کی اک نشانی سے ہوا

کہہ رہا تھا وہ کہ کیسے کٹ رہے تھے اس کے دن
میں گرفتہ دل بہت اس کی کہانی سے ہوا

اک جگہ کی صاف اور تازہ ہوا اچھی لگی
کچھ علاج دل وہاں کے سادہ پانی سے ہوا

کس قدر غم خوار تھا وہ شہر اور ہمدرد لوگ
اس کا کچھ اندازہ اپنی رائیگانی سے ہوا

رت بدل جانے سے پیلا پڑ گیا فرش چمن
زرد پیڑوں کا بدن برگ خزانی سے ہوا

کر رہا ہوں میں زباں کو اک بناوٹ سے رہا
لفظ زندہ پھر مری سادہ بیانی سے ہوا

میرے اس کے درمیاں جیسے کبھی کچھ بھی نہ تھا
ایسا شاہیںؔ بس ذرا سی بدگمانی سے ہوا