جدا تھی بام سے دیوار در اکیلا تھا
مکیں تھے خود میں مگن اور گھر اکیلا تھا
تھی آرزو کہ رہوں جبر سے محاذ آرا
میں ڈر گیا کہ یہ لمبا سفر اکیلا تھا
نگاہ غیر جسے معتبر بہت ٹھہری
اسے میں کیسے دکھاتا نگر اکیلا تھا
کہاں تلک میں شجاعت کی داد دیتا یہاں
کہ اس کی ساری سپہ میں ادھر اکیلا تھا
بہت مزے میں رہے سرنگوں خجل پودے
ہوائے تیز کی زد میں شجر اکیلا تھا
عبث شریک تھا بے وقت رزم میں شاہیںؔ
دیار غیر میں وہ بے خبر اکیلا تھا
غزل
جدا تھی بام سے دیوار در اکیلا تھا
جاوید شاہین