چڑھا پانی ذرا تو اپنے دھارے سے نکل آیا
اچانک اک جگہ دریا کنارے سے نکل آیا
بہت روشن تھا وہ اور آخر شب کے افق پر تھا
مرے ہی سامنے دن اس ستارے سے نکل آیا
مجھے اپنے بدن کا خس جلانا تھا زمستاں میں
مرا یہ کام دل ہی کے شرارے سے نکل آیا
تہ دریا پڑے رہنا تھا میں نے بھی گہر صورت
تھی موج تند اک جس کے سہارے سے نکل آیا
سفر کو اک جگہ سے کر لیا کچھ لمبا اور مشکل
غلط رستہ تھا وہ جس کے اشارے سے نکل آیا
حساب دوستاں کرنے ہی سے معلوم یہ ہوگا
خسارے میں ہوں یا اب میں خسارے سے نکل آیا
بہت مشکل تھا کچھ اس حسن کی تعریف میں کہنا
مرا مطلب مگر اک استعارے سے نکل آیا
زمین دل کو بس تھوڑے سے پانی کی ضرورت تھی
یہ پانی اک گزرتے ابر پارے سے نکل آیا
مجھے پھر قید کر لینا تھا اس کے حسن نے شاہیںؔ
مناسب وقت پر میں اک نظارے سے نکل آیا
غزل
چڑھا پانی ذرا تو اپنے دھارے سے نکل آیا
جاوید شاہین