یہ جو تنہائی ملی آنکھ میں دھرنے کے لیے
اس میں اک دشت بھی ہے میرے گزرنے کے لیے
جمع کرتی ہے مجھے رات بہت مشکل سے
صبح کو گھر سے نکلتے ہی بکھرنے کے لیے
پاؤں سے لپٹی ملی ساری کی ساری یہ زمیں
یہ فلک پورا ملا آنکھ میں دھرنے کے لیے
اور پھر کرنا پڑا گوشت کو ناخن سے جدا
یہ ضروری تھا کسی زخم کو بھرنے کے لیے
تھی وہ اک تیز ہوا اونچا مجھے لے آئی
اب زمیں تنگ سی لگتی ہے اترنے کے لیے
بات کیسی بھی ہو پل بھر کی ندامت کے سوا
خرچ آتا ہے بھلا کتنا مکرنے کے لیے
اور پھر ایسا ہوا سامنے میرے شاہینؔ
جھوٹ کے پاؤں نکل آئے ٹھہرنے کے لیے
غزل
یہ جو تنہائی ملی آنکھ میں دھرنے کے لیے
جاوید شاہین