اجنبی بود و باش کے قرب و جوار میں ملا
بچھڑا تو وہ مجھے کسی اور دیار میں ملا
میرے لیے وہ کم نما حیرت گل بنا رہا
آنکھ کے وسط میں سدا ایک غبار میں ملا
باغ تھا جس طرح سجا اس میں کسی کا ہاتھ تھا
جیسا بھی کوئی پھول تھا ایک قطار میں ملا
یا تو وہ ایک خواب تھا ٹوٹ کے جڑتا ہی رہا
یا پھر خلل نگاہ کا آنکھ کے تار میں ملا
عرصہ وہ میرے عشق کا نکلا کوئی فریب سا
میں تھا کہاں وہ خود نما خود ہی سے پیار میں ملا
اتنی زیادہ بھیڑ تھی بات نہ اس سے ہو سکی
پل بھر وہ تیز وقت کی راہ گزار میں ملا
برف تھی کب تھی وہ ہوا گھر سے یونہی نکل پڑا
جسم کے کٹنے کا مزہ جاڑے کی دھار میں ملا
شہر وہ تھا عجیب سا جو بھی وہاں پہ شخص تھا
بند بہت بری طرح ایک حصار میں ملا
یہ مرے ماہ یہ برس میری حیات یک نفس
میرا جہان خار و خس مجھ کو ادھار میں ملا
پھول کچھ اس طرح کھلا دل بھی ذرا سا کٹ گیا
تھوڑا سا رنگ خون کا رنگ بہار میں ملا
شام ہی سے مہ تمام چڑھنے لگا فلک کا بام
آخر شب یہ نرم گام ایک اتار میں ملا
شاہیںؔ گلوں کا قافلہ جس میں شریک وہ بھی تھا
ایک جگہ رکا ہوا وادی خار میں ملا
غزل
اجنبی بود و باش کے قرب و جوار میں ملا
جاوید شاہین