ڈھونڈ رکھی ہے مری وحشت نے آسانی مری
گھر کی حالت ہی میں رکھ دی ہے بیابانی مری
نام ہی کو بس پڑے گا بوجھ تیری جیب پر
دیکھنے کی ہے سر بازار ارزانی مری
ہوش ہے بس اس قدر نیرنگئ حالات میں
دو قدم رہتی ہے آگے مجھ سے حیرانی مری
حسن بے پروا کو خود سے تھوڑا غافل دیکھ کر
مجھ کو کیا کچھ اس کا دکھلاتی ہے عریانی مری
وہ عجب اک شہر تھا جس میں کٹے یوں ماہ و سال
دن سے میں واقف نہیں تھا شب تھی انجانی مری
ہے کوئی جو رکھ رہا ہے روز و شب کا سب حساب
ہوتی رہتی ہے کہیں پر سخت نگرانی مری
ہر طرح کے موسموں میں میرا رکھتا ہے خیال
ہے کوئی جو کرتا رہتا ہے نگہبانی مری
آج بھی کج ہے اسی دھج سے پھٹی سی اک کلاہ
تنگ کرتی ہے ابھی تک خوئے سلطانی مری
کس جگہ ہے وہ بچا رکھا ہے جس کے واسطے
ایک سجدہ جو لیے پھرتی ہے پیشانی مری
خود بنا لیتا ہوں میں اپنی اداسی کا سبب
ڈھونڈ ہی لیتی ہے شاہیںؔ مجھ کو ویرانی مری
غزل
ڈھونڈ رکھی ہے مری وحشت نے آسانی مری
جاوید شاہین