ڈوبنے والا تھا دن شام تھی ہونے والی
یوں لگا مری کوئی چیز تھی کھونے والی
صبح کے ساتھ ہوئی ختم مری رات کی گشت
رہ گئی ایک گلی شہر کے کونے والی
کتنا شفاف چمکتا ہوا دن تھا جس کی
دھوپ تھی پیار کی بارش میں بھگونے والی
کسی نا دیدہ گھڑی کے لیے تیار تھا میں
ایسی چپ تھی کہ کوئی بات تھی ہونے والی
زندگی میلی ہوئی گرد مہ و سال کے ساتھ
اک جگہ چھوڑ کے ہے پوری یہ دھونے والی
لاکھ بنجر ہو زمیں پھر بھی پنپ جائے گی
آخری شے جو مرے پاس ہے بونے والی
اتنی مصروف ہے ہنگامۂ بے مصرف میں
صبح سے پہلے نہیں رات یہ سونے والی
زندگی اور ہی ہوتی ہے بسر کرنے کو
تیری میری ہے فقط بوجھ کو ڈھونے والی
کس جگہ ہوگا مجھے جوڑنے والا لمحہ
وہ گھڑی ذات کے دانوں کو پرونے والی
سارا سبزہ تھا کسی مخملی بستر کی طرح
اور زمیں گھاس کے تختے پہ تھی سونے والی
یوں تو ہر بات یہاں ہوتی رہے گی لیکن
تری خواہش کے مطابق نہیں ہونے والی
بات اس بار گھروں تک نہیں رہنی شاہیںؔ
اب کے طغیانی ہے شہروں کو ڈبونے والی
غزل
ڈوبنے والا تھا دن شام تھی ہونے والی
جاوید شاہین