کشاکش غم ہستی میں کوئی کیا سنتا
ہمیں تک آ نہ سکی دل کے ٹوٹنے کی صدا
ہر ایک پھول کے چہرے پہ گرد جمنے لگی
کہیں سے آج اے ابر بہار جھوم کے آ
چلے تھے جس کے بھروسے پہ رہروان بہار
وہ ماہتاب سر دشت پچھلی شب نکلا
کہیں صدائے جرس ہے نہ گرد راہ سفر
ٹھہر گیا ہے کہاں قافلہ تمنا کا
ہجوم لالہ و گل راستے سے ہٹ جائے
تلاش خار میں نکلا ہے کوئی آبلہ پا
گزر کے آیا ہوں ان سخت منزلوں سے جہاں
تمہاری یاد کا سایہ بھی آس پاس نہ تھا
کہیں سے کوئی پکارے کہ آج پھر شاہینؔ
دلوں کو ڈسنے لگا ہے دلوں کا سناٹا
غزل
کشاکش غم ہستی میں کوئی کیا سنتا
جاوید شاہین