فقط اس ایک الجھن میں وہ پیاسا دور تک آیا
چمکتی ریت پیچھے تھی کہ دریا دور تک آیا
مرے خاشاک میں پڑنے کو بے کل تھا شرر کوئی
مرا دامن پکڑنے ایک شعلہ دور تک آیا
ذرا آگے گیا تو پھول بھی تھے نرم سائے بھی
نظر تو دھوپ کا اک زرد خطہ دور تک آیا
کیا غارت محبت کی فقط ایک تیز بارش نے
اتر کر دل سے سب رنگ تمنا دور تک آیا
خطا کس کی ہے تم ہی وقت سے باہر رہے شاہیںؔ
تمہیں آواز دینے ایک لمحہ دور تک آیا
غزل
فقط اس ایک الجھن میں وہ پیاسا دور تک آیا
جاوید شاہین