EN हिंदी
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں | شیح شیری
Thik hai KHud ko hum badalte hain

غزل

ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں

جون ایلیا

;

ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

ہے اسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

تم بنو رنگ تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں

میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں