فرصت کار فقط چار گھڑی ہے یارو
یہ نہ سوچو کی ابھی عمر پڑی ہے یارو
جاں نثاراختر
دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں
گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں
جاں نثاراختر
دل کو ہر لمحہ بچاتے رہے جذبات سے ہم
اتنے مجبور رہے ہیں کبھی حالات سے ہم
جاں نثاراختر
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
جاں نثاراختر
اور کیا اس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں
دل کے زخموں کو چھوا ہے ترے گالوں کی طرح
جاں نثاراختر
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
جاں نثاراختر
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں
جاں نثاراختر
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
جاں نثاراختر
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جاں نثاراختر