اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں
مجھ کو سنبھال حد سے گزرنے لگا ہوں میں
پہلے حقیقتوں ہی سے مطلب تھا اور اب
ایک آدھ بات فرض بھی کرنے لگا ہوں میں
ہر آن ٹوٹتے یہ عقیدوں کے سلسلے
لگتا ہے جیسے آج بکھرنے لگا ہوں میں
اے چشم یار میرا سدھرنا محال تھا
تیرا کمال ہے کہ سدھرنے لگا ہوں میں
یہ مہر و ماہ ارض و سما مجھ میں کھو گئے
اک کائنات بن کے ابھرنے لگا ہوں میں
اتنوں کا پیار مجھ سے سنبھالا نہ جائے گا
لوگو تمہارے پیار سے ڈرنے لگا ہوں میں
دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں
گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں
غزل
اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں
جاں نثاراختر