ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
خودبخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی ہے
مہکی مہکی ہے شب غم ترے بالوں کی طرح
تیرے بن رات کے ہاتھوں پہ یہ تاروں کے ایاغ
خوبصورت ہیں مگر زہر کے پیالوں کی طرح
اور کیا اس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں
دل کے زخموں کو چھوا ہے ترے گالوں کی طرح
گنگناتے ہوئے اور آ کبھی ان سینوں میں
تیری خاطر جو مہکتے ہیں شوالوں کی طرح
تیری زلفیں تری آنکھیں ترے ابرو ترے لب
اب بھی مشہور ہیں دنیا میں مثالوں کی طرح
ہم سے مایوس نہ ہو اے شب دوراں کہ ابھی
دل میں کچھ درد چمکتے ہیں اجالوں کی طرح
مجھ سے نظریں تو ملاؤ کہ ہزاروں چہرے
میری آنکھوں میں سلگتے ہیں سوالوں کی طرح
اور تو مجھ کو ملا کیا مری محنت کا صلہ
چند سکے ہیں مرے ہاتھ میں چھالوں کی طرح
جستجو نے کسی منزل پہ ٹھہرنے نہ دیا
ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح
زندگی جس کو ترا پیار ملا وہ جانے
ہم تو ناکام رہے چاہنے والوں کی طرح
غزل
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
جاں نثاراختر