لپٹ سی داغ کہن کی طرف سے آتی ہے
جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے
میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے
یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم
مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے
پہاڑ چپ ہیں تو اب ریگ زار بولتے ہیں
ندائے کوہ ختن کی طرف سے آتی ہے
کسی کے وعدۂ فردا کے برگ و بار کی خیر
یہ آگ ہجر کے بن کی طرف سے آتی ہے
جگوں کے کھوئے ہوؤں کو پکارتا ہے یہ کون
صدا تو خاک وطن کی طرف سے آتی ہے
غزل
لپٹ سی داغ کہن کی طرف سے آتی ہے
عرفانؔ صدیقی