EN हिंदी
عشق میاں اس آگ میں میرا ظاہر ہی چمکا دینا | شیح شیری
ishq miyan is aag mein mera zahir hi chamka dena

غزل

عشق میاں اس آگ میں میرا ظاہر ہی چمکا دینا

عرفانؔ صدیقی

;

عشق میاں اس آگ میں میرا ظاہر ہی چمکا دینا
میرے بدن کی مٹی کو ذرا کندن رنگ بنا دینا

آؤ تمہاری نذر کریں ہم ایک چراغ حکایت کا
جب تک جاگو روشن رکھنا نیند آئے تو بجھا دینا

بیس اکیس برس پیچھے ہمیں کب تک ملتے رہنا ہے
دیکھو، اب کی بار ملو تو دل کی بات بتا دینا

سینے کے ویرانے میں یہ خوشبو ایک کرامت ہے
ورنہ اتنا سہل نہیں تھا راکھ میں پھول کھلا دینا

دل کی زمیں تک روشنیاں تھیں، چہرے تھے، ہریالی تھی
اب تو جہاں بھی ساحل پانا کشتی کو ٹھہرا دینا

مولیٰ، پھر مرے صحرا سے بن برسے بادل لوٹ گئے
خیر، شکایت کوئی نہیں ہے اگلے برس برسا دینا

خواجہ خضر سنو ہم کب سے اس بستی میں بھٹکتے ہیں
تم کو اگر تکلیف نہ ہو تو جنگل تک پہنچا دینا