EN हिंदी
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ | شیح شیری
mere hone mein kisi taur se shamil ho jao

غزل

میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ

عرفانؔ صدیقی

;

میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

دشت سے دور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ

جس پہ ہوتا ہی نہیں خون دو عالم ثابت
بڑھ کے اک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ

وہ ستم گر تمہیں تسخیر کیا چاہتا ہے
خاک بن جاؤ اور اس شخص کو حاصل ہو جاؤ

عشق کیا کار ہوس بھی کوئی آسان نہیں
خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ

ابھی پیکر ہی جلا ہے تو یہ عالم ہے میاں
آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہو جاؤ

میں ہوں یا موج فنا اور یہاں کوئی نہیں
تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ