EN हिंदी
ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے | شیح شیری
humse wo jaan-e-suKHan rabt-e-nawa chahti hai

غزل

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

عرفانؔ صدیقی

;

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے
چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے

اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال
میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے

میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد
خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے
تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد
گھر کو چلتے ہیں کہ اب شام ہوا چاہتی ہے

ہم نے ان لفظوں کے پیچھے ہی چھپایا ہے تجھے
اور انہیں سے تری تصویر بنا چاہتی ہے