اگرچہ پھول یہ اپنے لیے خریدے ہیں
کوئی جو پوچھے تو کہہ دوں گا اس نے بھیجے ہیں
افتخار نسیم
بہتی رہی ندی مرے گھر کے قریب سے
پانی کو دیکھنے کے لیے میں ترس گیا
افتخار نسیم
دیوار و در جھلستے رہے تیز دھوپ میں
بادل تمام شہر سے باہر برس گیا
افتخار نسیم
فصل گل میں بھی دکھاتا ہے خزاں دیدہ درخت
ٹوٹ کر دینے پہ آئے تو گھٹا جیسا بھی ہے
افتخار نسیم
غیر ہو کوئی تو اس سے کھل کے باتیں کیجئے
دوستوں کا دوستوں سے ہی گلہ اچھا نہیں
افتخار نسیم
ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا
افتخار نسیم
اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو
افتخار نسیم
جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے
جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے
افتخار نسیم
جس گھڑی آیا پلٹ کر اک مرا بچھڑا ہوا
عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شہزادہ لگا
افتخار نسیم