نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا
گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا
ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا
نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا
اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف
جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا
ابھی نہ علم ہو اس کو لہو کی لذت کا
یہ راز اس سے بہت دیر تک چھپا رکھنا
کبھی نہ لانا مسائل گھروں کے دفتر میں
یہ دونوں پہلو ہمیشہ جدا جدا رکھنا
اڑا دیا ہے جسے چوم کر ہوا میں نسیمؔ
اسے ہمیشہ حفاظت میں اے خدا رکھنا
غزل
نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا
افتخار نسیم