رات کو باہر اکیلے گھومنا اچھا نہیں
چھوڑ آؤ اس کو گھر تک راستا اچھا نہیں
غیر ہو کوئی تو اس سے کھل کے باتیں کیجئے
دوستوں کا دوستوں سے ہی گلہ اچھا نہیں
اتفاقاً مل گیا تو پوچھ لو موسم کا حال
کیوں نہیں ملتا وہ اس سے پوچھنا اچھا نہیں
چوم کر جس کو خدا کے ہاتھ سونپا تھا نسیمؔ
اس کے بارے میں ہمیشہ سوچنا اچھا نہیں
غزل
رات کو باہر اکیلے گھومنا اچھا نہیں
افتخار نسیم